Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

آئیے! آلِ رسول سے فٹنس کا راز لیں

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2024ء

فرمانِ حضرت امام رضاسلام اللہ و رضوانہ علیہ 

’’ جو شخص چاہے کہ اس کا بدن ہلکا پھلکا رہے اور زیادہ موٹاپا نہ چڑھے اور بہت زیادہ گوشت نہ بڑھے اسے چاہیے کہ رات کا کھانا کم کر دے۔‘‘

امریکن یونیورسٹی کی تحقیق

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے نتائج امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی کانفرنس میں پیش کیے گئے۔محققین نے ایک سال تک تحقیق و جائزہ کے بعد دریافت کیا کہ شام 6 بجے کے بعد زیادہ کیلوریز لینے کے نتیجے میں بلڈ پریشر ، جسمانی وزن میں اضافہ اور بلڈشوگر لیول بھی اوپر کی جانب جانے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جسمانی ورم، ہاضمہ کی خرابی ،بے خوابی کی شکایت ،کولیسٹرو ل ،موٹاپا، ذہنی وجلدی امراض اورامراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لندن کے کنگز کالج کے غذائی سائنسز کےپروفیسر ڈاکٹر گرڈا پوٹ کہتے ہیں کہ اس پرانی کہاوت میں بہت زیادہ سچائی ہے کہ بادشاہ کی طرح ناشتہ کریں،شہزادے کی طرح دوپہر کا کھانا اور مفلس کی طرح رات کا کھانا کھائیں۔

جدید دنیا میں کونسا رواج بڑھ رہا

اس وقت انٹرمٹنٹ فاسٹنگ، یعنی کسی ایک دن میں آٹھ گھنٹے تک کچھ نہ کھانا، کے بارے میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔

کیلیفورنیا کے سالک انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل سٹڈیز سے منسلک ایملی منوگن کب کھانا چاہیےپر ایک تحقیقی پیپر لکھ چکی ہیں۔وہ کہتی ہیں ‘جسم کو دن میں 12 گھنٹے تک خوراک کا وقفہ دینے سے ہمارے نظام انہضام کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے۔‘

 روزانہ کھانے میں ایک بڑے وقفے کے فوائد ہیں اور رات کا وقت اس وقفے کے لئے بہت موزوں ہے۔کھانے میں لمبے وقفے سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز یا لحمیات کو ٹھیک کر سکے جو کسی وجہ سے کھل نہیں سکے ہیں۔ ایسے لحمیات کا کئی قسم کی بیماری سے تعلق جوڑا جاتا ہے۔‘

 ہمارے جسموں کا ارتقا انٹرمٹنٹ فاسٹنگ (دن کا کچھ حصہ روزے کی حالت میں گزارنا) کی طرز پر ہوا ہے۔ اس سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ جسم میں توانائی کو جمع کرے اور اسے وہاں استعمال کرے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے جسموں میں جمع توانائی کو خارج کرنے کے نظام کو بھی متحرک کرے۔کھانا کھانے کے بعد جسم میں گلوکوز لیول میں اضافے کی وجہ سے جسم کم توانائی کو جمع کر پاتا ہے۔

پروفیسر پاولی کہتے ہیں کہ ہمارے ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رات کا کھاناجلدی اور کم کھانے سے ہماری خوراک میں وقفے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے جس کے جسم پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔

کھانا کم کھانا صحت کا اہم اصول 

اگر انٹرمٹنٹ فاسٹنگ صحت کے لیے مفید ہے تو پھر دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے؟کچھ ماہرین کے خیال میں دن میں صرف ایک بار کھانا ہی بہترین عمل ہے۔جب فریج اور فریزر نہیں ہوتے تھے تو ہم صرف اسی وقت کھانا کھاتے تھے جب کھانا فراہم ہوتا تھا۔ تاریخ میں ہمیشہ انسان ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا۔انسانی خوراک کی تاریخ پر نظر رکھنے والےایک بہت بڑےغذائی ماہر کہتے ہیں کہ قدیم روم میں صرف دوپہر کے وقت صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جاتا تھا۔

اگر آپ اپنا زیادہ کھانا دن کے ابتدائی حصے میں کھاتے ہیں تو جسم تمام توانائی کو استعمال کر سکتا ہے اور اسے چربی کے طور جسم میں جمع نہیں کرے گا۔انسانی جسم نیند کی کیفیت لانے کے لیے میلاٹونیم نامی مادہ پیدا کرتا ہے اور اس کے اخراج سے انسولین کی پیدوار تھم جاتی ہے۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا جسم میلاٹونیم پیدا کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دورانِ نیند آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ نہ جائے۔اگر آپ ایسے وقت کیلوریز کھاتے ہیں جب جسم میں میلاٹونیم کی مقدار زیادہ ہے تو اس سے گلوکوز لیول میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے اگر بہت زیادہ کیلوریز آپ کھا لیں تو جسم کا اس سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر آپ کا جسم گلوکوز کی صحیح مقدار کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔

 

یہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک لمبے عرصے تک جسم میں گلوکوز کی مقدار زیادہ رہے تو وہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

 

لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ناشتے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 

ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ نیند سے بیداری کے ایک دو گھنٹے بعد ہی ناشتے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ناشتے کا تصور قدرے جدید دور کا تصور ہے۔

 

چیرنگٹن ہولنز کہتی ہیں کہ قدیم یونان میں ناشتے کو متعارف کروایا گیا۔ ‘وہ ناشتے میں روٹی کو وائن میں بھگو کر کھاتے اور دن کو کافی کم کھانا کھاتے تھے۔ شام کو جی بھر کر کھانا کھانے کا رواج قدیم یونانی دور میں شروع ہوا۔‘

 

ابتدا میں ناشتے کی ‘عیاشی‘ صرف امرا کرتے تھے۔ پھر 17ویں صدی کے بعد ہر صاحبِ حیثیت شخص کو صبح ایک اچھے کھانے کی ‘عیاشی‘ میسر آ گئی۔

 

چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ ‘جسے آج ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کی شروعات 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہوئی۔ اس دور میں کام کے اوقات بھی مقرر ہوئے اور ان اوقات کی وجہ سے دن میں تین بار کھانے کا رواج ہوا۔

 

’ملازمت پیشہ افراد کے لیے ناشتہ عام طور پر بہت سادہ سا کھانا ہوتا تھا جو عام طور گلی میں فروِخت ہونے والا کھانا یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا تھا۔‘

 

لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خوراک کی دستیابی ایک مسئلہ بن گئی تو بہت سے لوگوں کے لیے مکمل ناشتے کا حصول مشکل ہو گیا اور انھوں نے اسے چھوڑنا شروع کر دیا۔

 

چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ جس کھانے کو ہم ناشتے کے طور پر جانتے ہیں اس کا رواج 1950 کی دہائی میں ہوا۔ ‘اس سے پہلے ہم جیم کے ساتھ ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کو کھا کر ہی خوش تھے۔‘

 

لہٰذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ دو یا تین کھانے، رات بھر طویل روزہ رکھنے کے ساتھ، دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے کھانا نہ کھایا جائے، اور زیادہ کیلوریز کو دن کے پہلے حصے میں کھا لیا جائے، یہی صحت کے لیے مفید ہے۔

 

ایملی منوگن کا کہنا ہے کہ کھانے کے بہترین اوقات کو مقرر نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ ایسے لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے جو بے قاعدہ وقت میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔

 

منوگن کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ شام سات بجے کے بعد کھانا نہ کھائیں ایسے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے جو مختلف اوقات میں کام کرتے ہیں۔

 

اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات کو فاقہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو کوشش کریں کہ زیادہ دیر یا جلدی نہ کھائیں اور آخری کھانے میں کم کھانے کی کوشش کریں۔

 

‘آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدہ بنانے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے۔‘

 

محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیں اور تسلسل عمل بہت ضروری ہے۔

فرمانِ حضرت امام رضاسلام اللہ و رضوانہ علیہ ’’ جو شخص چاہے کہ اس کا بدن ہلکا پھلکا رہے اور زیادہ موٹاپا نہ چڑھے اور بہت زیادہ گوشت نہ بڑھے اسے چاہیے کہ رات کا کھانا کم کر دے۔‘‘امریکن یونیورسٹی کی تحقیقامریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے نتائج امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی کانفرنس میں پیش کیے گئے۔محققین نے ایک سال تک تحقیق و جائزہ کے بعد دریافت کیا کہ شام 6 بجے کے بعد زیادہ کیلوریز لینے کے نتیجے میں بلڈ پریشر ، جسمانی وزن میں اضافہ اور بلڈشوگر لیول بھی اوپر کی جانب جانے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جسمانی ورم، ہاضمہ کی خرابی ،بے خوابی کی شکایت ،کولیسٹرو ل ،موٹاپا، ذہنی وجلدی امراض اورامراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لندن کے کنگز کالج کے غذائی سائنسز کےپروفیسر ڈاکٹر گرڈا پوٹ کہتے ہیں کہ اس پرانی کہاوت میں بہت زیادہ سچائی ہے کہ بادشاہ کی طرح ناشتہ کریں،شہزادے کی طرح دوپہر کا کھانا اور مفلس کی طرح رات کا کھانا کھائیں۔جدید دنیا میں کونسا رواج بڑھ رہااس وقت انٹرمٹنٹ فاسٹنگ، یعنی کسی ایک دن میں آٹھ گھنٹے تک کچھ نہ کھانا، کے بارے میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔کیلیفورنیا کے سالک انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل سٹڈیز سے منسلک ایملی منوگن کب کھانا چاہیےپر ایک تحقیقی پیپر لکھ چکی ہیں۔وہ کہتی ہیں ‘جسم کو دن میں 12 گھنٹے تک خوراک کا وقفہ دینے سے ہمارے نظام انہضام کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے۔‘ روزانہ کھانے میں ایک بڑے وقفے کے فوائد ہیں اور رات کا وقت اس وقفے کے لئے بہت موزوں ہے۔کھانے میں لمبے وقفے سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز یا لحمیات کو ٹھیک کر سکے جو کسی وجہ سے کھل نہیں سکے ہیں۔ ایسے لحمیات کا کئی قسم کی بیماری سے تعلق جوڑا جاتا ہے۔‘ ہمارے جسموں کا ارتقا انٹرمٹنٹ فاسٹنگ (دن کا کچھ حصہ روزے کی حالت میں گزارنا) کی طرز پر ہوا ہے۔ اس سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ جسم میں توانائی کو جمع کرے اور اسے وہاں استعمال کرے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے جسموں میں جمع توانائی کو خارج کرنے کے نظام کو بھی متحرک کرے۔کھانا کھانے کے بعد جسم میں گلوکوز لیول میں اضافے کی وجہ سے جسم کم توانائی کو جمع کر پاتا ہے۔پروفیسر پاولی کہتے ہیں کہ ہمارے ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رات کا کھاناجلدی اور کم کھانے سے ہماری خوراک میں وقفے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے جس کے جسم پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔کھانا کم کھانا صحت کا اہم اصول اگر انٹرمٹنٹ فاسٹنگ صحت کے لیے مفید ہے تو پھر دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے؟کچھ ماہرین کے خیال میں دن میں صرف ایک بار کھانا ہی بہترین عمل ہے۔جب فریج اور فریزر نہیں ہوتے تھے تو ہم صرف اسی وقت کھانا کھاتے تھے جب کھانا فراہم ہوتا تھا۔ تاریخ میں ہمیشہ انسان ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا۔انسانی خوراک کی تاریخ پر نظر رکھنے والےایک بہت بڑےغذائی ماہر کہتے ہیں کہ قدیم روم میں صرف دوپہر کے وقت صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جاتا تھا۔اگر آپ اپنا زیادہ کھانا دن کے ابتدائی حصے میں کھاتے ہیں تو جسم تمام توانائی کو استعمال کر سکتا ہے اور اسے چربی کے طور جسم میں جمع نہیں کرے گا۔انسانی جسم نیند کی کیفیت لانے کے لیے میلاٹونیم نامی مادہ پیدا کرتا ہے اور اس کے اخراج سے انسولین کی پیدوار تھم جاتی ہے۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا جسم میلاٹونیم پیدا کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دورانِ نیند آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ نہ جائے۔اگر آپ ایسے وقت کیلوریز کھاتے ہیں جب جسم میں میلاٹونیم کی مقدار زیادہ ہے تو اس سے گلوکوز لیول میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے اگر بہت زیادہ کیلوریز آپ کھا لیں تو جسم کا اس سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر آپ کا جسم گلوکوز کی صحیح مقدار کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک لمبے عرصے تک جسم میں گلوکوز کی مقدار زیادہ رہے تو وہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ناشتے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ نیند سے بیداری کے ایک دو گھنٹے بعد ہی ناشتے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ناشتے کا تصور قدرے جدید دور کا تصور ہے۔
چیرنگٹن ہولنز کہتی ہیں کہ قدیم یونان میں ناشتے کو متعارف کروایا گیا۔ ‘وہ ناشتے میں روٹی کو وائن میں بھگو کر کھاتے اور دن کو کافی کم کھانا کھاتے تھے۔ شام کو جی بھر کر کھانا کھانے کا رواج قدیم یونانی دور میں شروع ہوا۔‘
ابتدا میں ناشتے کی ‘عیاشی‘ صرف امرا کرتے تھے۔ پھر 17ویں صدی کے بعد ہر صاحبِ حیثیت شخص کو صبح ایک اچھے کھانے کی ‘عیاشی‘ میسر آ گئی۔
چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ ‘جسے آج ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کی شروعات 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہوئی۔ اس دور میں کام کے اوقات بھی مقرر ہوئے اور ان اوقات کی وجہ سے دن میں تین بار کھانے کا رواج ہوا۔
’ملازمت پیشہ افراد کے لیے ناشتہ عام طور پر بہت سادہ سا کھانا ہوتا تھا جو عام طور گلی میں فروِخت ہونے والا کھانا یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا تھا۔‘
لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خوراک کی دستیابی ایک مسئلہ بن گئی تو بہت سے لوگوں کے لیے مکمل ناشتے کا حصول مشکل ہو گیا اور انھوں نے اسے چھوڑنا شروع کر دیا۔
چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ جس کھانے کو ہم ناشتے کے طور پر جانتے ہیں اس کا رواج 1950 کی دہائی میں ہوا۔ ‘اس سے پہلے ہم جیم کے ساتھ ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کو کھا کر ہی خوش تھے۔‘
لہٰذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ دو یا تین کھانے، رات بھر طویل روزہ رکھنے کے ساتھ، دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے کھانا نہ کھایا جائے، اور زیادہ کیلوریز کو دن کے پہلے حصے میں کھا لیا جائے، یہی صحت کے لیے مفید ہے۔
ایملی منوگن کا کہنا ہے کہ کھانے کے بہترین اوقات کو مقرر نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ ایسے لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے جو بے قاعدہ وقت میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
منوگن کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ شام سات بجے کے بعد کھانا نہ کھائیں ایسے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے جو مختلف اوقات میں کام کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات کو فاقہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو کوشش کریں کہ زیادہ دیر یا جلدی نہ کھائیں اور آخری کھانے میں کم کھانے کی کوشش کریں۔
‘آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدہ بنانے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے۔‘
محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیں اور تسلسل عمل بہت ضروری ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 789 reviews.